اسلام و علیکم ۔۔۔
امید کرتا ہوں تمام دوست خیریت سے ہونگے۔۔۔
چند دن پہلے میں نے سلمان بھائی، انکی شریک حیات افشاں بی بی اور انکے صاحبزادے ابان کی ایک تصویر دیکھی جو کہ کشمیر کے ایک شہر سمدانی میں ایک انٹر ویو کے دوران لی گئ تھی۔اسی وقت میں نے سلمان بھائی سے رابطہ کیا کہ مہربانی کر کے جب گوجرخان سے گزر ہوا تو ڈنر ہمارے ساتھ کرنا اگے سے ان کا جواب آیا یہ تو پرانی تصویر ہے میں تھوری دیر سوچ میں پڑ گیا خیر گب شپ ہوتی رہی اسی دوران انہوں نے بتایا کہ ہمارا بہت جلد بڑا ٹور ہونے جا رہا ہے جو کہ سندھ حیدرآباد تا چترال ہے۔ میں نے سلمان بھائی سے چھوٹی سی التماس کی کہ مہربانی کر کے ڈنر ہمارے ساتھ کرنا ہے۔ بہت اصرار کے بعد بالآخر وہ مان ہی گئے۔ مورخہ7 جولائی ان کی پوسٹ دیکھی وہ اوکاڑہ میں تھے ان سے رابطہ کر کے ان کا قیمتی وقت لیا اور 8 جولائی کافی انتظار کرنے کے بعد بالآخر وہ 9 بجے گوجرخان پہنچے ان سے ملاقات کی اور اپنے گھر کی طرف ہو لیئے۔ کافی ساری بات چیت ہوئی بائیک ٹور کے حوالے سے۔۔
یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ ہم پہلے بھی کئی بار مل چکے ہیں۔ خیر اتنی دیر میں امی جان نے دستر خواں بھی سجا دیا تھا ۔۔ ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا ۔۔۔ اور افشاں بھابھی اور ثناء بھابھی کو امی سے ملوایا۔ ابو کی سلمان بھائی، انکے بیٹے ابان اور حمزہ بھائی سے خوب گپ شپ ہوئی اور ٹائم بھی کافی ہو چکا تھا کیونکہ ابھی انکا سفر بھی بہت زیادہ تھا۔
میں نے سوچھا انکو آرام کا بھی موقع دیا جائے ۔۔۔۔ اب میں نے انکو Good Night کہا ۔۔۔ کیونکہ صبح 4 بجے دوبارہ سفر شروع کرنا تھا جوکہ گوجرخان سے کمراٹ تک کرنا تھا ۔
خیر صبح کے 5 بج رہے تھے اور انکی روانگی کے لئے تیاریاں بھی مکمل ہو چکی تھی میں نے کافی روکنے کی کوشش کی کہ ناشتہ بھی کر کے جائے لیکن وہ نہ مانے۔ اب یادگار کےلئے سلمان بھائ اور افشاں بھابھی انکے صاحبزادے ابان اور انکے دوست حمزہ بھائ اور ثناء بھابھی Faimaly On Bike Group کے ساتھ تصاویر لیں اور اب ان کو خیر آباد کرنے کا وقت آہ چکا تھا۔۔ اب یہ وقت ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ان سے عرضہ دراز کوئ پرانہ تعلق ہو۔۔۔ خیر اب ان کو الوداع کیا اور انہوںنے اگلی منزل کی طرف سفر شروع کر دیا۔۔۔ اکثر جدائی کے وقت ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کوئی روکنے کی کوشش ضرور کرتا ہے جیسے یہ انکے نکلنے کا وقت ہوا آسمان پر کالے بادل چھا گئے اور کچھ دیر بعد تیز بارش بھی شروع ہو گئی اب بھی انہوں نے کہاں رکنا تھا ۔۔ ( یہ الفاظ ان کے تھے 1200km کا سفر کر کہ آ رہے ہیں راستے میں ہم نے سارےقدرت کے رنگ دیکھے گرمی سردی طوفان بارش کالی گھٹائیں اور یہ بارش ہمارے لیئے کچھ بھی نہیں ہے ) اب کوئی اور راستہ بھی نظر آ رہا تھا انکو کیسے روکا جائے
خیر جیسے اللہ کو منظور تھا۔۔۔ بلہ ہم کیا کر سکتے ہیں انکو اللہ خافظ کہا وہ اپنے راستے اور میں اپنے۔
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
———-
میرے گھر والوں کی طرف سے
بہت بہت شکریہ آپ نے اپنے قیمتی وقت میں سے ہمیں وقت دیا ۔ آپ کے ساتھ گزرہ ہوا ہر پل اب صرف یادگار ہی رہے گا اگر زندگی نے پھر کبھی موقع دیا تو ضرور ملاقات ہو گئی اللہ پاک آپ کو ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے ہمیشہ خوش رکھے امین
وہ کوئی دوست تھے اچھے دنوں کا
جو پچھلی رات سے یاد آ رہے ہے