کہانی چولستان کے سفر کی۔۔

جیسے ہی سوشل میڈیا پر ریلی کی خبریں گردش میں آئیں۔ ہمارے واٹس ایپ گروپ میں اس پروگرام کی بحث چڑھ گئی۔۔

کون کون، کب ، کیسے اور کہاں سے۔۔۔۔۔۔

جانا تو سب چاہتے ہیں لیکن شاید حکومت نہیں چاہتی۔۔۔

پٹرول کی اس قیمت نے سیاحت کو بڑا دھچکا لگا۔۔۔ خیر بندے کو ڈھیٹ ہونا چاہیے۔۔ بالآخر جس جس نے کنفرم کیا انکی میٹنگ ہوئی اور روٹ میپ فائنل ہوا۔

وقت، سامان اور خدمات کا تعین کر کے دعا ہوئی۔۔۔ اور جانے والے سامان برابر کرنے میں لگ گئے۔۔

اور پلک جھپکنے ہی دو دن گزر گئے اور ہم تین دوست خالد صحرائی، عبدالماجد اعوان اور میں دعا مانگ کر سفر پر روانہ ہو گئے۔ آگے جا کر پٹرول پمپ پر رکے۔

جی ۔۔

ٹینک فل کر دیں۔۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

اب تھوڑی دیر بعد پیٹرول پمپ کے منیجر نے دیکھا کہ لیٹر سے زیادہ ہو رہا ہے تو اس نے اپنے کیبن سے آواز اور اشارہ کیا کہ بس کرو۔

لیکن ۔۔ ہماری قسمت اس نے نہیں دیکھا اتنے میں مینجر صاحب باہر آ گئے۔

اور چلاکر اسے مخاطب ہوا ۔۔۔۔

اوے بس کرو 500 سے زیادہ نہیں ڈالنا تھا۔ ۔۔

اب اتنے تک 1800 کا آ چکا تھا۔ میں نے کہا اب 2000 کا تو پورا کر دو۔۔

اس طرح قریب 8 لیٹر کا جگاڑ تو ہو گیا۔ اب سیدھے اگلا پمپ جسکا پیمانہ اور پٹرول پر مجھے یقین ہوتا ہے کوٹلہ جام کےآگے پی ایس او کا پمپ ہے۔ وہاں سے پھر ٹینک بھر گیا۔ اور یہی سوچا کہ ہر 50 کلومیٹر بعد ایک ایک لیٹر ڈلواتے جائیں گے۔

جہاں خان سے پہلے بیگز میں سے کیمپ کھل گیا سامان گرنا والا تھا کہ رک گئے پھر اور جب رکنا ہو تو قریب کسی اچھی جگہ پر رکیں، مطلب کوئی ہوٹل۔ بائیک پارک کیا سارا سامان دوبارہ کھولا اور ساتھ 3 کپ دودھ پتی کا آرڈر جاری فرما دیا۔ ابھی سامان باندھنا آخری مراحل میں تھا کہ کڑک چاے آ گئی۔ سکون سے نوش فرمایا۔ اور پھر مسافر سفر پر نکل پڑے..

سرائے مہاجر سے دائیں ہوے ملتان مظفرگڑھ سڑک پر۔۔ اور دنیا ہی بدل گئی، پرانی سڑک ، ٹوٹی ہوئی سڑک اور پھر شنگل اور ہر اطراف سے اڑتی ہو دھول اور مٹی، لیکن ان تمام تر مشکلات سے نمٹنے کے لیے ہم پہلے سے تیار تھے۔۔ اور پرجوش سفر کرتے چلے گئے۔ کہ چوک اعظم پر پہنچے تو خالد بھائی نے کہا نماز کے لیے رکنا ہے، میں نے کہا پیٹرول کے لیے بھی، عبدالماجد نے کہا چاے کےلیے بھی، تو آگے رکتے ہیں جہاں سب کام اکٹھے ہو جائیں گے۔ شام کی نماز، پیٹرول اور چائے۔ کے بعد پھر سلف پریس کیا اور نکل پڑے روڑ بھی کافی پہتر تھا پر اندھیرا بھی ہو چکا تھا۔۔ اس رفتار میں سفر کرکے تھوڑی دیر میں چوک سرور شہید پہنچے ۔ وہاں کسی کام کے لیے رکنا پڑا تو سوچا کہ کچھ ہلکا سا کھا لیں اور وہ برگر ہی تھا سو برگر کھایا اور پھر سفر شروع پہلے پہلے سڑک کی حالت انتہائی خراب تھی۔ پھر ٹھیک تھا اور ہم مزے مزے سے جلد ہی پٹھان ہوٹل، ہیڈ محمد والا اور ملتان پہنچ گئے۔۔ ملتان میں ایک تصویر بنائی اور نجیب بھائی سے معذرت کی کہ کھانا کےلیے نہیں آسکتے۔

اصل میں نجیب بھائی Najeeb Khan ہمارے پیارے بائیکر دوست ہیں جنکا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے لیکن نوکری کے سلسلہ میں ملتان ہوتے ہیں۔۔۔۔

تو انکی دعوت میں شرکت نہ کرنے کی معذرت کی اور نکل پڑے۔ گوگل میپ کی مدد سے۔ ۔۔۔

بہاولپور چوک سے سیدھا بہاولپور ہائی وے پر بائیک کو ایسے چھوڑا جیسے ریس میں گھوڑے چھوڑے جاتے ہیں۔ ۔۔

بستی ملوک کے قریب ایک چائے والےہوٹل پر رکے اور ساتھ ہی یہ سوچا کہ یہاں کوئی ہوٹل میں کمرہ لیتے ہیں۔ اب لیٹ ہو چکے ہیں۔

تو عبدالماجد بھائی نے ایک دوست ڈی ایم جمیل جو کہ ایک سینئر بائیکر ہیں انہیں میسج کیا کہ آپ سو جائیں ہم یہاں ہوٹل لے ریے ہیں۔

لیکن جمیل بھائی نےکہا نکل آو یار کوئی مسئلہ نہیں میں تو آپکا انتظار کر رہا ہوں۔ ۔

اب اور آپشن نہیں جانا پڑے گا۔ پھر روانہ ہوئے تو بہاولپور شہر سے تھوڑا پہلے ایک ہوٹل پر ڈنر کےلیے رکے ، کھانا پہلے اسلیے نہیں کھایا کہ پھر سفر میں نیند آتی ہے سفر نہیں ہو سکتا۔۔۔

کھانا کھایا چائے پی اور لوکیشن لگائی اور پھرتے پھراتے اور غلط صحیح ہوتے ہوتے ہم 1بجے کے بعد انکے گھر پہنچے۔ تو ڈی ایم جمیل صاحب نے دروازے پر مسکرا کر ویلکم کیا۔۔

انکے مہمان خانہ میں بائیکس پارک کیے اور ارادہ کیا کہ تھکے ہوئے بہت ہیں سوتے ہیں۔ ۔۔

لیکن۔۔۔لیکن۔۔ جب بائیکرز۔ بائیکرز سے ملتے ہیں تو کہاں آرام کرتے ہیں۔۔۔ سفری کہانیاں سنتے سناتے مزید 2 گھنٹے گزر گئے۔۔

اور پھر آنکھیں بند ہونے لگیں۔۔ اور پھر اچانک نیند آگئی۔۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top